
استقبالِ رمضان المبارک
از تحریر: مفتی محمد وسیم ضیائ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِااللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سال کے بارہ مہینوں میں سب سے افضل رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔رمضان المبارک کا لفظ رمض سے بنا ہے جس کا معنیٰ گرمی یا گرم ہے جیسے بٹھی لوہے کو صاف کرتی ہے اور صاف لوہے کوعمدہ بنا کر قیمتی کردیتی ہے ، اُسی طرح رمضان المبارک انسان کو گناہو ں سے پاک اور ستھرا کرکے قیمتی بنا دیتا ہے اللہ رب العزت رمضان المبارک کا تعارف پیش کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہ
(01)
شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلْیَصُمْہُؕ
(سورۃ البقرہ آیت نمبر 185)
مہ : ماہِ رمضان المبارک جس میں قرآن کو اتارا گیا لوگوں کے لیے ہدایت اور روشن دلیلیں ہیں ہدایت اور حق و باطل میں تمیز کرن ے کی تو تم میں جوکوئی یہ مہینہ پائے ضرور اُس کے روزے رکھے۔ مذکورہ جزءِ آیت میں رمضان المبارک کا تعارف نزولِ قرآن سے اور قرآن کا تعارف ہدایت اور فرقان سے پیش کیا گیااور ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا گیا رمضان المبارک کے روزے رکھنا لازمی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
(02)
اِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ وَغُلِّقَتْ اَبْوَابُ جَھَنَّمَ وَسُلْسِلَتِ الشَّیٰطِیْن ۔
یعنی : جب رمضان المبارک آتاہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جا ے ہیں اور جھنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو قید کر دیا اتا ہے ۔
(بخاری و مسلم)
مذکورہ بالا حدیث سے واضح ہوتاہے کہ نزولِ رحمت کی کثرت دعاکا جلدی قبول ہونا، اچھے کاموں کی قوت اور طاقت کا دیا جانا اور ایسے مواقع فراہم کرناجس سے انسان کادل گندگی سے دور اور نفسانی خواہشات سے بچ جائے۔ یہ سب آمد رمضان کی برکت سے ہوتا ہے۔ حضرت سیدنا
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں
(03)
خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيمٌ مُبَارَكٌ شَهْرٌ فِيهِ
لَيْلَةٌ خَيْرٌ مَنْ أَلْفِ شهر جعل الله تَعَالَى صِيَامَهُ فَرِيضَةً وَقِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بخصلة من الْخَيْرِ كَانَ كَمَنْ أَدَّى
فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ وَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيهِ كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ وَالصَّبْر ثَوَابه الْجنَّة
وَشهر الْمُوَاسَاة وَشهر يزْدَاد فِيهِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ وَكَانَ لَهُ
مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَيْسَ كلنا يجد مَا نُفَطِّرُ بِهِ الصَّائِمَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُعْطِي اللَّهُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى مَذْقَةِ لَبَنٍ أَوْ تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ
اللَّهُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ وَمَنْ خَفَّفَ
عَنْ مَمْلُوكِهِ فِيهِ غَفَرَ الله لَهُ وَأعْتقهُ من النَّار
یعنی : شعبان کےآخری دن سرکار دو عالم ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : لوگو ! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہوا ہے جو ایسا مبارک مہینہ ہے۔ جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے اللہ تعالیٰ نےاس مہینہ کے روزوں کو فرض کیا ہے اور اس مہینہ کی راتوں میں قیام کو نفل مقرر کیا ہے۔ پس جوکوئی اس مہینہ میں نوافل کے ذریعے قریب ہونا چاہےتو گویااس نے رمضان کےعلاوہ فرض ادا کیا۔ اور جو کوئی اس مہینہ میں فریضہ ادا کرے گویا اس نے رمضان کے علاوہ دنوں میں ستر فرض ادا کیے ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے اور غمخواری کا مہینہ ہے اور یہ ایسا مہینہ ہے جس میں مؤمن کا رزق بڑھ جاتاہے۔ اور اس مہینے میں کسی روزے دار کو افطار کرانا گناہوں کی مغفرت اور گردن کو جھنم سے آزاد کروانے کا سبب ہے۔ افطار کروانے والے کے لیے روزے دار کی طرح اجر وثواب ہے۔اور اس سے روزیدار کے اجروثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی ۔ صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم : ہم میں سے ہر شخص روزے دار کو افطار کرانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : یہ ثواب اس شخص کو بھی ملے گا، جوروزے دار کو ایک گھونٹ دودھ یا پانی یا کھجور سے افطار کرائےاوراگر روزے دار کو پیٹ بھر کے کھلائے گاتو اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے سیراب فرمائےگا۔ پھر دخولِ جنت تک پیاسا نہ ہوگا۔یہ ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصّہ رحمت کا درمیانی حصّہ مغفرت کا اور آخری حصّہ دوزخ سے آزادی کاہے اور جس نے اپنے خادم کے کام میں تخفیف کی اللہ تعالیٰ اس کی بخشش فرمائے گا189
مشکوٰۃ شریف حدیث 1965)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ رمضان المبارک میں ہرروزدس لاکھ افراد کو جھنم سے آزاد کرتا ہے۔( کنزالعمال حدیث 23702 )رسول اللہ ﷺ ارشاد فرمایا : اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امّت تمنا کرتی کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔(صحیح ابن خزیمہ ، حدیث 1886 )
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کہ : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : سب لوگ ممبر کے پاس حاضر ہوجاؤ صحابہ کرام جمع ہوگئے پیارے مصطفی علیہ الصلوۃ والسلام ممبر پر چڑھنے لگے تو تین مرتبہ آمین فرمایا ہمارے استفسار کرنے پر ارشاد فرمایا : ابھی جبریل تشریف لاکر عرض کی وہ شخص خدا کی رحمت سے دور ہوجائے جس نے رمضان المبارک پایا اور اپنی مغفرت نہ کروائی ۔ تو اس وقت میں نے ایک مرتبہ آمین کہی۔
(المستدرک للحاکم ، حدیث 7256 )